Sunday, January 2, 2011

کھلا ہے سبھی کے لیے باب رحمت

کھلا ہے سبھی کے لیے باب رحمت
وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی،
قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی
میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا
تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی
وہ دربار سچ مچ میرے سامنے تھا
ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی
جو اِک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا
تو تھی دوسرے ہاتھ میں روضے کی جالی
دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے
نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی
جو پوچھا ہے تم نے کہ میں نذر کرنے
کو کیا لے گیا تھا تو تفصیل سن لو
تھا نعتوں کا اک ہار، اشکوں کے موتی،
درودوں کا گجرا، سلاموں کی ڈالی
دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے
دیار نبی جس نے آنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا
نگاہ کرم جس پہ آقا نے ڈالی
میں اُس آستان حرم کا گدا ہوں
جہاں سجدے کرتے ہیں شاہان عالم
مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا
مرا سر ہے شایان تاج بلالی
میں توصیف سرکار کر تو رہا ہوں
مگر اپنی اوقات سے با خبر ہوں
میں صرف ایک ادنیٰ ثنا خواں ہوں ان کا
کہاں میں کہاں نعت اقبال و حالی





No comments:

Post a Comment