٭ عجیب سے خوف اور منفی خیالات اور عجیب سی سوچیں مجھے تنگ کرتی ہیں
٭ تین چیزوں کو پاک رکھو… جسم کو… لباس کو… اور خیالات کو…
٭ بے شک دلوں میں برے برے خیالات گزرتے ہیں مگر نیک عقلیں اُن سے باز رکھتی ہیں…حضرت علی
٭ جب کسی کام میں اللہ کی حکمت معلوم نہ ہو تو اپنے خیالات کو آگے نہ بڑھا… حضرت علی
٭ جس شخص کے اپنے خیالات خراب ہوتے ہیں اُس میں دوسروں کی بہ نسبت بدظنی زیادہ ہوتی ہے… حضرت علی
٭ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے… جو کوئی بھلائی تمہیں پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے… دراصل شیطان ہی دل میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات ڈال کر انسان کو شرک میں مبتلا کرکے اُس کے اعمال ضائع کرواتا ہے اور یہ وسوسے اور خیالات انسان کو اندر سے کمزور کردیتے ہیں…
الوداع الوداع الوداع ہے۔۔۔۔
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔۔۔۔
الوداع الوداع الوداع ہے۔۔۔۔
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔۔۔۔
دن تیرے آنے سے معتبر تھے،
نور میں ڈوبے شام و سحر تھے،
تیرے جانے سے دل رو رہا ہے،
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔
الوداع الوداع الوداع ہے۔۔۔۔
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔۔۔۔
سحری افطار تراویح،
اور اذان نماز وہ تسبیح،
یہ سماں نوری تجھ سے ملا ہے،
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔
الوداع الوداع الوداع ہے۔۔۔۔
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔۔۔۔
رحمتوں کا تو پیغام لایا،
برکتوں کا امکان لایا،
رتبہ اعلی و افضل تیرا ہے،
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔
الوداع الوداع الوداع ہے۔۔۔۔
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔۔۔۔
جام رحمت کے تو نے پلائے،
گل مرادوں کے تو نے کھلائے،
تو جدا ہم سے اب ہو رہا ہے،
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔
الوداع الوداع الوداع ہے۔۔۔۔
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔۔۔۔
ہم کو بے کل تو پائے گا تب تک،
گر رہے ہیں زنہ اگلے برس تک،
پھر ملیں گے جو حکمِ خدا ہے،
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔
الوداع الوداع الوداع ہے۔۔۔۔
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔۔۔۔
چل دیا تو جو ہے رب کی جانب،
اہل ایماں کے پر نم ہیں قالب،
قلب عشرت بھی غم سے بھرا ہے،
ماہ رمضان بس الوداع ہے۔
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
اے نورِ خدا آکر آنکھوں میں سما جانا
یا در پہ بلا لینا یا خواب میں آجانا
اے پردہ نشیں دل کے پردے میں رہا کرنا
جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
میں قبر اندھیری میں گھبراں گا جب تنا
امداد میری کرنے آجانا میرے آقا
روشن میری تربت کو اے نورِ خدا کرنا
جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
مجرم ہوں جہاں بھر کا محشر میں بھرم رکھنا
رسوائے زمانہ ہوں دامن میں چھپا لینا
مقبول دعا میری اے نورِ خدا کرنا
جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
چہرے سے ضیا پائی ان چاند ستاروں نے
اس در سے شفا پائی دکھ درد کے ماروں نے
آتا ہے انہیں صابر ہر دکھ کی دوا کرنا`
جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
اللہ اللہ وہاں کا وہ کیفِ دوام
وہ ثباتِ سکوں آفریں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکونِ دل و جان و روح و نظر
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکونِ دل و جان و روح و نظر
یہ اُنہی کا کرم ہے اُنہی کی عطا
یہ اُنہی کا کرم ہے اُنہی کی عطا
ایک کیفیتِ دل نشیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی
جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی
جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی
جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی
جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر
وہ فلک رہ گیا وہ زمیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب
ہم رواں جب ہوئے سوئے کوئے حبیب
برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں
بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی
برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں
بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر
اور پوری ہوئی ہر تمنا مگر
یہ تمنائے پل بے حزیں رہ گئی
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
تُو امیر حرم، تُو امیر حرم، میں فقیر عجم
تیرے گل اور یہ لب، میں طلب ہی طلب
تُو عطا ہی عطا، تُو کجا من کجا
تُو ابد آفریں میں ہوں دو چار پل
تُو ابد آفریں میں ہوں دو چار پل
تُو یقیں میں گماں میں سخن تُو عمل
تُو ہے معصومیت میں میری معصیت
تُو کرم میں خطا، تُو کجا من کجا
تُو ہے احرامِ انوار باندھے ہوئے
تُو ہے احرامِ انوار باندھے ہوئے
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے
تابۂ عشق تُو میں تیرے چار سو
تُو اثر میں دعا، تُو کجا من کجا
تُو حقیقت ہے، میں صرف احساس ہوں
تُو حقیقت ہے، میں صرف احساس ہوں
تُو سمندر میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تیری رہ گزر
سدرة المنتہیٰ، تُو کجا من کجا
میرا ہر سانس تو خوں نچوڑے میرا
تیری رحمت مگر دل نہ توڑے میرا
کاسۂ ذات تُو تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا، تُو کجا من کجا
ڈگمگاؤں جو حالات کے سامنے
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے
میری خوش قسمتی میں تیرا امتی
تُو جزا میں رضا، تُو کجا منکجا
میرا ملبوس ہے پردہ پوشی تیری
میرا ملبوس ہے پردہ پوشی تیری
مجھ کو تابِ سخن دے خموشی تیری
تُو جلی میں خفی تُو عقل میں نفی
تُو صلہ میں گلا، تُو کجا من کجا
دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں
دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں
جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں
آنسوؤں کی زباں ہوں میری ترجماں
دل سے نکلے صدا، تُو کجا من کجا
تو امیر حرم میں فقیر عجم
تیرے گل اور یہ لب میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا، تُو کجا من کجا
ہم سفیروں باغ میں ہے کوئی غم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سُونا چمن رہ جائے گا
اطرسوں کم خواب کے بستر پہ یوں نہ زان ہو
اِس تنے بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تُو نے
جو آباد تھے وہ محل اب ہیں سُونے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اِسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر اِک لے کے کیا کیا نہ حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یونہی ٹھاٹھ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
بڑھاپے سے پا کر پیامِ قضا بھی
نہ چونکا نہ چہکا نہ سنبھلا ذرا بھی
کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی
جنوں کب تلک ہوش میں اپنے آبھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہی تجھ کو دُھن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی؟
جہاں تاک میں کھڑی ہو اجل بھی
بس اب اپنے اس جہل سے تُو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہ دنیائے فانی ہے محبوب تجھ کو
ہوئی آہ کیا چیز مرغوب تجھ کو
کیا ہائے شیطاں نے مغلوب تجھ کو
سمجھ لینا اب چاہیے خوب تجھ کو
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
نہ دلدادۂ شعر کوئی رہے گا نہ گرویدۂ شہرہ جوئی رہے گا
نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا
رہے گا تو ذکرِ نکوئی رہے گا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
جب اِس بزم سے اٹھ گئے دوست اکثر
اور اْٹھتے چلے جا رہے ہیں برابر
یہ ہر وقت پیشِ نظر جب ہے منظر
یہاں پر تِرا جی بہلتا ہے کیونکر
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار تو کھلتے ہیں
غلاموں پہ وہ اسرار
کہ رہتے ہیں وہ توصیف و ثنائے شہ ابرار میں ہر لحظہ گہر بار
ورنہ وہ سید عالی نسبی، ہاں وہی امی لقبی ہاشمی و مطلبی و عربی و قرشی
و مدنی اور کہاں ہم سے گنہگار
آرزو یہ ہے کہ ہو قلب معطر و مطہر و منور و مجلی و مصفی، در اعلیٰ جو نظر آئے کہیں جلوۂ روئے شہ ابرار
جن کے قدموں کی چمک چاند ستاروں میں نظر آئے جدھر سے وہ گزر جائے وہی راہ چمک جائے، دمک جائے، مہک جائے بنے رونق گلزار
سونگھ لوں خوشبوئے گیسوئے محمد وہ سیاہ زلف نہیں جس کے مقابل
بنفشہ یہ سیوتی یہ چنبیلی یہ گل لالہ و چمپا کا نکھار
جس کی نکہت پہ ہے قربان گل و برگ و سمن نافہِ آہوئے ختن، بادِ چمن، بوئے چمن، نازِ چمن، نورِ چمن، رنگِ چمن سارا چمن زار
ہے تمنا کہ سنوں میں بھی وہ آوازِ شہ جن و بشر حق کی خبر خوش تر و شیریں زشکر حسن صباحت کا گہر لطف کرے ناز سخن پر
وہ دل آرام صدا دونوں جہاں جس پہ فدا غنچہ دہن طوطیِ صد رشکِ چمن نغمہِ بلبل زگلستانِ ارم مصر و یمن جس کے خریدار
اِک شہنشاہ نے بخشے سمر قند و بخارا کسی محبوب کے تل پر مگر اے سید عالم تری عزت تری عظمت پہ دل و جاں ہیں نثار
آپ کے ذکر میں ہے نغمہ سرا سارے حدی خوان عرب نغمہ نگاران عجم شوکت الفاظ و ادب عظمت قرطاس و قلم باد صبا موج نسیما بہار
عشق کے رنگ میں رنگ جاؤ مہاجر ہو کہ پختون و بلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے ہر خار کو وہ پھول بنا لیتا ہے دنیا کو جھکا لیتا ہے کرتا ہے زمانے کو محبت سے شمار
اے خدا عزوجل اے شہ کونین کے رب لفظ حریص کے سبب ایک ہوں سب عجمی ہوں کے عرب تاکہ ملے امت مرحوم کو پھر کھویا وقار
یا نبی آپ کا یہ ادنیٰ ثنا خواں در رحمت کا گدا دیتا ہے در در یہ صدا چاہتا ہے آپ سے چاہت کا صلہ اپنی زباں میں تاثیر
سن کے سب اہل چمن اس کا سخن ان کو بھی آجائے حیا سر ہو ندامت سے جھکا اور نظر دیکھے وہ اسلاف کی الفت کا نظارا اک بار
اے ادیب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال
اُن کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اِس میں شعار
لم یات نطیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سرسو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
البحر علا والموج تغیٰ، من بے کس و طوفاں ہو شربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا، موری نیا پار لگا جانا
یا شمس نظرت الیٰ لیلی، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا
لک بدر فی الوجہ الاجمل، خط ہالہ مہ زلف ابراجل
تورے چندن چندر پروکنڈل، رحمت کی بھرن برسا جانا
انا فی عطش وسخاک اتم، اے گیسوئے پاک اے ابر کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم، دو بوند ادھر بھی گرا جانا
یا قافلتی زیدی اجلک، رحمے برحسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک، طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
واھا لسویعات ذہبت، آں عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کہ نہ پرت، دردا وہ مدینے کا جانا
القلب شج والھم شجوں، دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مرا کون ہے تیرے سوا جانا
الروح فداک فزد حرقا، یک شعلہ دگر برزن عشقا
موراتن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا
بس خامۂ خام نوائے رضا نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا ، ناچار اس راہ پڑا جانا
کھلا ہے سبھی کے لیے باب رحمت
وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی،
قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی
میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا
تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی
وہ دربار سچ مچ میرے سامنے تھا
ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی
جو اِک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا
تو تھی دوسرے ہاتھ میں روضے کی جالی
دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے
نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی
جو پوچھا ہے تم نے کہ میں نذر کرنے
کو کیا لے گیا تھا تو تفصیل سن لو
تھا نعتوں کا اک ہار، اشکوں کے موتی،
درودوں کا گجرا، سلاموں کی ڈالی
دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے
دیار نبی جس نے آنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا
نگاہ کرم جس پہ آقا نے ڈالی
میں اُس آستان حرم کا گدا ہوں
جہاں سجدے کرتے ہیں شاہان عالم
مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا
مرا سر ہے شایان تاج بلالی
میں توصیف سرکار کر تو رہا ہوں
مگر اپنی اوقات سے با خبر ہوں
میں صرف ایک ادنیٰ ثنا خواں ہوں ان کا
کہاں میں کہاں نعت اقبال و حالی
سرکار دو عالم کے رخ پرانوار کا عالم کیا ہوگا
جب زلف کا ذکر ہے قرآں میں رخسار کا عالم کیا ہوگا
محبوب خدا کے جلوؤں سے ایمان کی آنکھیں روشن ہیں
بے دیکھے ہی جب یہ عالم ہے دیدار کا عالم کیا ہوگا
جب اُن کے گدا بھر دیتے ہیں شاہانِ زمانہ کی جھولی
محتاج کی جب یہ حالت ہے مختار کا عالم کیا ہوگا
ہے نام میں اُن کے اتنا اثر جی اٹھتے ہیں مردے بھی سن کر
وہ حال اگر خود ہی پوچھیں بیمار کا عالم کیا ہوگا
جب اُن کے غلاموں کے در پر جھکتے ہیں سلاطینِ عالم
پھر کوئی بتائے آقا کے دربار کا عالم کیا ہوگا
جب سن کے صحابہ کی باتیں کفار مسلماں ہوتے ہیں
پھر دونوں جہاں کے سرور کی گفتار کا عالم کیا ہوگا
طیبہ سے ہوا جب آتی ہے بیکل کو سکوں مل جاتا ہے
اِس پار کا جب یہ عالم ہے تو اُس پار کا عالم کیا ہوگا
مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے
مئے عشق بھی پلانا مدنی مدینے والے
مری آنکھ میں سمانا مدنی مدینے والے
بنے دل تیرا ٹھکانہ مدنی مدینے والے
تری جب کہ دید ہو گی جبھی میری عید ہو گی
مرے خواب میں تم آنا مدنی مدینے والے
مجھے سب ستا رہے ہیں مرا دل دکھا رہے ہیں
تمہی حوصلہ بڑھانا مدنی مدینے والے
مرے سب عزیز چھوٹے سبھی یار بھی تو روٹھے
کہیں تم نہ روٹھ جانا مدنی مدینے والے
میں اگرچہ ہوں کمینہ ترا ہوں شہ مدینہ
مجھے سینے سے لگانا مدنی مدینے والے
ترے در سے شاہ بہتر ترے آستاں سے بڑھ کر
ہے بھلا کوئی ٹھکانہ مدنی مدینے والے
ترا تجھ سے ہوں سوالی شہا پھیرنا نہ خالی
مجھے اپنا تم بنانا مدنی مدینے والے
یہ مریض مر رہا ہے ترے ہاتھ میں شفاء ہے
اے طبیب جلد آنا مدنی مدینے والے
تُو ہی انبیاء کا سرور تُو ہی جہاں کا یاور
تُو ہی رہبرِ زمانہ مدنی مدینے والے
تُو ہے بیکسوں کا یاور اے مرے غریب پرور
ہے سخی تیرا گھرانا مدنی مدینے والے
تُو خدا کے بعد بہتر ہے سبھی سے میرے سرور
ترا ہاشمی گھرانہ مدنی مدینے والے
تیری فرش پر حکومت تری عرش پر حکومت
تُو شہنشہ زمانہ مدنی مدینے والے
ترا خلق سب سے اعلیٰ ترا حسن سب سے پیارا
فدا تجھ پہ سب زمانہ مدنی مدینے والے
کہوں کس سے آہ! جاکر سنے کون میرے دلبر
مرے درد کا فسانہ مدنی مدینے والے
بعطائے رب دائم تُو ہی رزق کا ہے قاسم
ہے ترا سب آب و دانہ مدنی مدینے والے
میں غریب بے سہارا کہاں اور ہے گزارا
مجھے آپ ہی نبھانا مدنی مدینے والے
یہ کرم بڑا کرم ہے تیرے ہاتھ میں بھرم ہے
سر حشر بخشوانا مدنی مدینے والے
کبھی جو کی موٹی روٹی تو کبھی کھجور پانی
ترا ایسا سادہ کھانا مدنی مدینے والے
ہے چٹائی کا بچھوانا کبھی خاک ہی پہ سونا
کبھی ہاتھ کا سرہانہ مدنی مدینے والے
تیری سادگی پہ لاکھوں تیری عاجزی پہ لاکھوں
ہوں سلام عاجزانہ مدنی مدینے والے
ملے نزع میں بھی راحت، رہوں قبر میں سلامت
تُو عذاب سے بچانا مدنی مدینے والے
اے شفیع روزِ محشر! ہے گنہ کا بوجھ سر پہ
میں پھنسا مجھے بچانا مدنی مدینے والے
گھپ اندھیری قبر میں جب مجھے چھوڑ کر چلیں سب
مری قبر جگمگانا مدنی مدینے والے
مرے شاہ! وقتِ رخصت مجھے میٹھا میٹھا شربت
تیری دید کا پلانا مدنی مدینے والے
پس مرگ سبز گنبد کی حضور ٹھنڈی ٹھنڈی
مجھے چھاؤں میں سُلانا مدنی مدینے والے
مرے والدین محشر میں گو بھول جائیں سرور
مجھے تم نہ بھول جانا مدنی مدینے والے
شہا! تشنگی بڑی ہے یہاں دھوپ بھی کڑی ہے
شہ حوض کوثر آنا مدنی مدینے والے
مجھے آفتوں نے گھیرا، ہے مصیبتوں کا ڈیرہ
یانبی مدد کو آنا مدنی مدینے والے
ترے در کی حاضری کو جو تڑپ رہے ہیں اُن کو
شہا! جلد تم بلانا مدنی مدینے والے
کوئی اِس طرف بھی پھیرا ہو غموں کا دور اندھیرا
اے سراپا نور! آنا مدنی مدینے والے
کوئی پائے بخت ورگر ہے شرف شہی سے بڑھ کر
تری نعل پاک اٹھانا مدنی مدینے والے
مرا سینہ ہو مدینہ مرے دل کا آبگینہ
بھی مدینہ ہی بنانا مدنی مدینے والے
اے حبیب رب باری، ہے گنہ کا بوجھ بھاری
تمہیں حشر میں چھڑانا مدنی مدینے والے
مری عادتیں ہوں بہتر بنوں سنتوں کا پیکر
مجھے متقی بنانا مدنی مدینے والے
شہا! ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں
تیری سنتیں سکھانا مدنی مدینے والے
ترے نام پر ہو قرباں مری جان، جانِ جاناں
ہو نصیب سر کٹانا مدنی مدینے والے
تیری سنتوں پہ چل کر مری روح جب نکل کر
چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے
ہیں مبلغ آقا جتنے، کرو دور اُن سے فتنے
بری موت سے بچانا مدنی مدینے والے
مرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ
اُنھیں خلد میں بسانا مدنی مدینے والے
مرے جس قدر ہیں احباب اُنھیں کر دیں شاہ بیتاب
ملے عشق کا خزانہ مدنی مدینے والے
مری آنے والی نسلیں ترے عشق میں ہی مچلیں
اُنھیں نیک تم بنانا مدنی مدینے والے
ملے سنتوں کا جذبہ مرے بھائی چھوڑیں مولا
سبھی داڑھیاں منڈانا مدنی مدینے والے
مری جس قدر ہیں بہنیں سبھی کاش برقع پہنیں
ہو کرم شہ زمانہ مدنی مدینے والے
دو جہان کے خزانے دئیے ہاتھ میں خدا نے
تیرا کام ہے لٹانا مدنی مدینے والے
ترے غم میں کاش عطار، رہے ہر گھڑی گرفتار
غمِ مال سے بچانا مدنی مدینے والے
آنے والو یہ تو بتاؤ شہر مدینہ کیسا ہے
سر ُان کے قدموں میں رکھ کر جھک کر جینا کیسا ہے
گنبد خضریٰ کے سائے میں بیٹھ کر تم تو آئے ہو
اِس سائے میں رب کے آگے سجدہ کرنا کیسا ہے
دل آنکھیں اور روح تمہاری لگتی ہیں سیراب مجھے
اُن کے در پہ بیٹھ کے آب زم زم پینا کیسا ہے
دیوانوں آنکھوں سے تمہاری اِتنا پوچھ تو لینے دو
وقت دعا روضے پہ اُن کے آنسو بہانا کیسا ہے
اے جنت کے حقدارو مجھ منگتے کو یہ بتلاؤ
اُن کی سخا سے دامن کو بھر کر آنا کیسا ہے
لگ جاؤ سینے سے میرے طیبہ سے تم آئے ہو
دیکھ لوں میں بھی آپ کو اب یہ دوری سہنا کیسا ہے
وقت رخصت دل کو اپنے چھوڑ وہاں تم آئے ہو
یہ بتلاؤ عشرت اُن کے گھر سے بچھڑنا کیسا ہے
کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
اُنہیں خلق کرکے نازاں ہوا خود ہی دست قدرت
کوئی شاہکار ایسا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
کسی وہم نے صدا دی کوئی آپ کا مماثل
تو یقیں پکار اٹھا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
مرے طاق میں جاں میں نسبت کے چراغ جل رہے ہیں
مجھے خوف تیرگی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
مرے دامن طلب کو ہے انہی کے در سے نسبت
کسی اور سے یہ رشتہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
میں ہوں وقف نعت گوئی کسی اور کا قصیدہ
مری شاعری کا حصہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
سر حشر ان کی رحمت کا صبیح میں ہوں طالب
مجھے کچھ عمل کا دعویٰ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا پیام آیا
جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا اعلیٰ مقام آیا
یہ کون سر سے کفن لپیٹے چلا ہے الفت کے راستے پر
فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا
فضا میں لبیک کی صدائیں زفرش تا عرش گونجتی ہیں
ہر ایک قربان ہو رہا ہے زباں پہ یہ کس کا نام آیا
یہ راہِ حق ہے سنبھل کے چلنا یہاں ہے منزل قدم قدم پر
پہنچنا در پہ تو کہنا آقا سلام لیجیے غلام آیا
یہ کہنا آقا بہت سے عاشق تڑپتے سے چھوڑ آیا ہوں میں
بلاوے کے منتظر ہیں لیکن نہ صبح آیا نہ شام آیا
دعا جو نکلی تھی دل سے آخر پلٹ کے مقبول ہو کے آئی
وہ جذبہ جس میں تڑپ تھی سچی وہ جذبہ آخر کو کام آیا
خدا ترا حافط و نگہباں اور راہ بطحا کے جانے والے
نوید صد انبساط بن کر پیام دارالسلام آیا
اُدھر نعت خیر الوریٰ ہو رہی ہے اِدھر مغفرت کی دعا ہو رہی ہے
نگاہ شفیع الوریٰ ہو رہی ہے گناہ گاہ امت رہا ہو رہی ہے
یہ معراج قابہ قوسین کیا ہے ہمارے ہی حق میں دعا ہو رہی ہے
مجھے بھی بلا لو مدینے میں آقا یہاں زندگی اِک سزا ہو رہی ہے
عطا کردو مجھ کو نواسوں کا صدقہ میری روح کرب و بلا ہو رہی ہے
سدا لب پہ آنے سے پہلے دیا ہے محمد کی جودوسخا ہو رہی ہے
مجھے جان جاں سے ملا دو خدارا میری روح تن سے جدا ہو رہی ہے
اٹھیں کس طرح اُن کے در سے نمازی قضا عمر بھر کی ادا ہو رہی ہے
نفیس حزیں نعت سنتے سناتے تیری زندگی کیا سے کیا ہو رہی ہے
میں مدت سے اِس آس پر جی رہا ہوں
خدا کب بلا لے مجھے اپنے گھر میں
کبھی تو سنے گا دعائیں وہ میری
میں مدت سے اِس آس پر جی رہا ہوں
جو لوگوں سے سن سن کے نقشے ہیں کھینچے
حقیقت میں ہوں گے مناظر وہ کیسے
کبھی جا کے دیکھوں گا میں آنکھوں سے اپنی
میں مدت سے اِس آس پر جی رہا ہوں
میرے سامنے ہو وہ گنبد خضریٰ
وہ روضے کی جالی وہ جنت کا گوشہ
کبھی چوم لوں جاکے خاک مدینہ
میں مدت سے اِس آس پر جی رہا ہوں
نہیں ہے بھروسہ کوئی زندگی کا
اُسی کو خبر ہے وہ سب جانتا ہے
بلالے گا مجھ کو وہ مرنے سے پہلے
میں مدت سے اِس آس پر جی رہا ہوں
جو جاتا ہے پاتا مرادیں وہاں پر
کہ ہیں ہم یہاں پر ہے کعبہ وہاں پر
کہ جلوا دکھا دے ہمیں تو بلا کے
میں مدت سے اِس آس پر جی رہا ہوں
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورے نام کی بنسی سُن سُن کر
مورے مَن کا کنول کِھل جاوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
جب کوئی کوئلِیا اَموا پر
توری پریم کَوِیتا گاوت ہے
توری پریم کَوِیتا گاوت ہے
تورے پریم کا میٹھا میٹھا رس
من آنگن میں برساوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
توری بَنسی بَاجَک ہے من میں
تورے گیت ہے گَلِیَن گَلِیَن میں
تورے گیت ہے گَلِیَن گَلِیَن میں
بَھرتا نَگنِی من جاوت ہے
مورا تن من سب جَل جاوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
وہ ہَمرے تاج بنانے کو
وہ ہَمرے بھاگ جگانے کو
وہ ہَمرے بھاگ جگانے کو
وہ ہَمرے بھاگ جگانے کو
آکاش سے دھرتی، دھرتی سے
آکاش پہ جاوت آوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
وہ مَد بھر نَین وہ چَندَر بَدَن
سَنسار بَنا جن کے کارن
سَنسار بَنا جن کے کارن
سَنسار بَنا جن کے کارن
اُس نور مُکَٹ کے دَرشَن سے
سورج کی کِرن شَرماوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
جو لاج گئے کی لاج رکھے
منگتوں کے سَر پر تاج رکھے
منگتوں کے سَر پر تاج رکھے
منگتوں کے سَر پر تاج رکھے
وہی گِیان دھیان ادیب مُراد
وہی مورا دَھرم کہلاوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورے نام کی بنسی سُن سُن کر
مورے مَن کا کنول کِھل جاوت ہے
من ناچت ہے من گاوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
تورا جنم دِوَس جب آوت ہے
نہ کلیم کا تصور … نہ خیالِ طور سینا…
میری آرزو محمد… میری جستجو مدینہ…
میں گدائے مصطفی ہوں… میری عظمتیں نہ پوچھو…
مجھے دیکھ کر جہنم کو بھی آگیا پسینہ…
مجھے دشمنو نہ چھیڑو… میرا ہے کوئی جہاں میں…
میں ابھی پکار لوں گا… نہیں دور ہے مدینہ…
سوا اِس کے میرے دل میں… کوئی آرزو نہیں ہے…
مجھے موت بھی جو آئے تو ہو سامنے مدینہ…
میرے ڈوبنے میں باقی… نہ کوئی کسر رہی تھی…
کہا المدد محمد تو ابھر گیا سفینہ…
میں مریض مصطفی ہوں مجھے چھیڑو نہ طبیبو…
میری زندگی جو چاہو مجھے لے چلو مدینہ…
کبھی اے شکیل دل سے نہ مٹے خیال احمد…
اسی آرزو میں مرنا… اسی آرزو میں جینا…
میرا پنجتن کو سلام ہے
(میں پنجتن کا غلام ہوں کی طرز پر)
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
بڑا جس کا دنیا میں نام ہے
بڑا جس کا دنیا میں نام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
ہے جو بنتِ سرور انبیائ
وہ ہے نورِ دیدۂ مصطفیٰ
ہے نساء خلد کی سیدہ
وہ ہے فاطمہ وہ ہے طاہرہ
بڑی عابدہ بڑی ساجدہ
وہ نبی کا عکس ہے ظاہرہ
وہ جمالِ سیرتِ طیبہ
وہ عطائے ربِّ انام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
وہ علی جو اَسَدُ اللہ ہوا
جسے سب نے شیرِ خدا کہا
بنا باب علم کے شہر کا
کوئی مثل اس کی ہوا نہ تھا
ہوئی جس پہ خیبر کی انتہا
قلعہ جس نے آخر فتح کیا
یہی بات حق ہے بلا شبہ
نہیں اس میں کوئی کلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
ہیں حسن حسین نبی کے پھول
انہیں سونگھتے تھے میرے رسول
ہے علی پِدَر تو ہے ماں بتول
جو نگاہ حق میں ہوئے قبول
ہوئی ان پہ رحمتِ حق نزول
مَلُوں ان کے کوچے کی منہ پہ دھول
ہوا شاد ان سے دِلِ ملول
کرم ان کا خلق پہ عام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
یہ ملا حسین سے ہے سبق
کٹے کربلا میں اگر حَلَق
تو ہو یوں حفاظتِ دینِ حق
نہ ہو غم کوئی نہ کوئی قَلَق
ہو بہادروں کا بھی رنگ فَق
تو ہو دشمنوں کے بھی سینے شَق
نظر آئے خُلد کا ہر طبق
پیے جب شہادت جام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
کہا جاتا جن کو ہے پنجتن
ہے عجب ہر اک کی ہی بات پر
ہے انہیں سے رونق انجمن
ہے بہار ان کی چمن چمن
ہوئی ان سے جس کو ذرا لگن
ملا اُس کو دونوں جہاں کا دَھن
کروں کیوں نہ ختم یہاں سخن
یہ ریاض اُن کا غلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میرا پنجتن کو سلام ہے
میں مرید خیر الانعام ہوں
میں فقیر خیر الانعام ہوں
میں غلام ابن غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
مجھے عشق ہے تو خدا سے ہے
مجھے عشق ہے تو رسول سے
میرے منہ سے آئے مہک صدا
جو میں نام لوں تیرا بھول سے
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
مجھے عشق سرّ و ثمن سے ہے
مجھے عشق سارے چمن سے ہے
مجھے عشق ان کی گلی سے ہے
مجھے عشق ان کے وطن سے ہے
مجھے عشق ہے تو علی سے ہے
مجھے عشق ہے تو حسن سے
مجھے عشق ہے تو حسین سے
مجھے عشق شاہ زمن سے ہے
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میرا شعر کیا میرا ذکر کیا
میری بات کیا میری فکر کیا
میری بات ان کی سباب سے
میرا شعر ان کے ادب سے
میرا ذکر ان کے طفیل سے
میری فکر ان کے طفیل سے
کہاں مجھ میں اتنی سکت بھلا
کہ ہو منقبت کا بھی حق ادا
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں مرید خیر الانعام ہوں
میں فقیر خیر الانعام ہوں
میں غلام…… ابن غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
ہوا کیسے سر سے وہ تن جدا…………
جہاں عشق ہو وہیں کربلا
میری بات ان ہی کی بات ہے
میرے سامنے وہی ذات ہے
وہی جن کو شیر خدا کہا
جنہیں باب صلے علٰی کہیں
وہی جن کو آل نبی کہیں
وہی جن کو ذات علی کہیں
وہی جن کو ناد علی کہیں
وہی پختہ ہے میں تو خام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں کمر ہوں شاعر بے نواں
میری حیثیت ہے بھلا کیا
وہ ہے بادشاہوں کا بادشاہ
وہ ہے بادشاہوں کا بادشاہ
میں ہوں ان کے در کا بس ایک گدا
میں ہوں ان کے در کا بس ایک گدا
یہ تو نسبتوں کا ہے سلسلہ
میرا پنجتن سے ہے واسطہ
میرا پنجتن سے ہے رابطہ
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں مرید خیر الانعام ہوں
میں فقیر خیر الانعام ہوں
میں غلام ابن غلام ہوں
بھر دو جھولی… بھر دو جھولی… میری یا محمد
لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
بھر دو جھولی… ہم سب کی
بھر دو جھولی محمد… بھر دو جھولی آقا جی
بھر دو جھولی، بھر دو جھولی، بھر دو جھولی
تمہارے آستانے سے زمانہ کیا نہیں پاتا
تمہارے آستانے سے زمانہ کیا نہیں پاتا
کوئی بھی در سے خالی مانگنے والا نہیں جاتا
بھر دو جھولی تاجدارِ مدینہ
تم زمانے کے مختار ہو یا نبی
بے کسوں کے مددگار ہو یا نبی
سب کی سنتے ہو اپنے ہوں یا غیر ہوں
سب کی سنتے ہو اپنے ہوں یا غیر ہوں
تم غریبوں کے غم خوار ہو یا نبی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
ہم ہیں رنج و مصیبت کے مارے ہوئے
سخت مشکل میں ہیں غم سے ہارے ہوئے
یا نبی کچھ خدارا ہمیں بھیک دو
یا نبی کچھ خدارا ہمیں بھیک دو
در پہ آئے ہیں جھولی پسارے ہوئے
بھردو جھولی میری سرکارِ مدینہ
بھردو جھولی میری تاجدارِ مدینہ
ہے مخالف زمانہ کدھر جائیں ہم
حالتِ بے کسی کس کو دکھلائیں ہم
ہم تمہارے بھکاری ہیں یا مصطفی
ہم تمہارے بھکاری ہیں یا مصطفی
کس کے آگے بھلا ہاتھ پھیلائیں ہم
بھردو جھولی میری سرکارِ مدینہ
بھردو جھولی میری تاجدارِ مدینہ
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی (Pauseکے ساتھ)
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو
در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
(اٹھانا ہے)
حق سے پائی وہ شانِ کریمی
مرحبا دونوں عالم کے والی… (کئی بار)
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ
جس پہ نظرِ کرم تم نے ڈالی
زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دینِ حق کی بچا لی (آبرو دین حق کی بچا لی )Repeat
وہ محمد کا پیارا نواسہ جس نے سجدے میں گردن کٹا لی
زندگی بخش دی بندگی کو
آبرو دینِ حق کی بچا لی
جو ابنِ مرتضیٰ نے کہا خوب ہے
قربانیٔ حسین کا انجام خوب ہے
قربان ہو کے فاطمہ زہرا کے چین نے
دینِ خدا کی شان بڑھائی حسین نے
بخشی ہے جس نے مذہبِ اسلام کو حیا
کتنی عظیم حضرتِ شبیر کی ہے ذات
میدانِِ کربلا میں شہہ خوش خِصال نے
میدانِ کربلا میں شہہ خوش خِصال نے
اور سجدے میں سر کٹا کے محمد کے لعل نے
تو زندگی بخش دی بندگی کو
آبرو دینِ حق کی بچالی
وہ محمد کا پیارا نواسہ
جس نے سجدے میں گردن کٹالی
(اٹھانا)
حشر میں اُن کو دیکھیں گے جس دم
امتی یہ کہیں گے خوشی سے
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد
جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی
محشر کے روز پیش خدا ہوں گے جس گھڑی
ہوگی گناہ گاروں میں کس درجہ بے کلی
آتے ہوئے نبی کو جو دیکھیں گے امتی
ایک دوسرے سے سب یہ کہیں گے خوشی خوشی
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد (کئی مرتبہ)
جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی
سرِ محشر گنہگاروں سے پرسش جس گھڑی ہوگی
یقیناً ہر بشر کو اپنی بخشش کی پڑی ہوگی
سبھی کو آس اُس دن کملی والے سے لگی ہوگی
کہ ایسے میں محمد کی سواری آرہی ہوگی
کہ ایسے میں محمد کی سواری آرہی ہوگی
پکارے گا زمانہ اُس گھڑی دکھ درد کے مارو
نہ گھبراؤ گنہگارو، نہ گھبراؤ گنہگارو
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد
جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی
عاشقِ مصطفی کی اذانیں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
سچا یہ واقعہ ہے اذانِ بلال کا
اک دن رسولِ پاک سے لوگوں نے یوں کہا
یا مصطفی اذان غلط دیتے ہیں بلال
کہیے حضور آپ کا اس میں ہے کیا خیال
فرمایا مصطفی نے یہ سچ ہے تو دیکھیے
وقتِ سحر کی آج اذاں اور کوئی دے
حضرت بلال نے جو اذانِ سحر نہ دی
حضرت بلال نے جو اذان سحر نہ دی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
حضرت بلال نے جو اذان سحر نہ دی
قدرت خدا کی دیکھو نہ مطلق سحر ہوئی
آئے نبی کے پاس پھر اصحاب با صفا
کی عرض مصطفی سے کہ یا شہہ انبیائ
ہے کیا سب سحر نہ ہوئی آج مصطفی
جبریل لائے ایسے میں پیغام کبریا
پہلے تو مصطفی کو ادب سے کیا سلام
بعد از سلام ان کو خدا کا دیا پیام
یوں جبریل نے کہا خیر الانام سے
یوں جبریل نے کہا خیر الانام سے
کہ اللہ کو ہے پیار تمہارے غلام سے
یوں جبریل نے کہا خیر الانام سے
فرما رہا ہے آپ سے یہ رب ذوالجلال
فرما رہا ہے آپ سے یہ رب ذوالجلال
فرما رہا ہے آپ سے یہ رب ذوالجلال
کہ ہوگی نہ صبح دیں گے جب تک نہ اذان بلالی
کہ ہوگی نہ صبح دیں گے جب تک نہ اذان بلالی
عاشق مصطفی کی اذانیں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سکتے تھے جس کو کیا اذان تھی اذانِ بلالی
کاش پرنم دیار نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
کاش پرنم دیار نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حالِ غم مصطفی کو سناؤں تھام کر اُن کے روضے کی جالی
حالِ غم مصطفی کو سناؤں تھام کر اُن کے روضے کی جالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
گناہوں کی عادت چھڑا میرے مولا
گناہوں کی عادت چھڑا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
گناہوں کی عادت چھڑا میرے مولا
گناہوں کی عادت چھڑا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
جو تجھ کو جو تیرے نبی کو پسند ہے
جو تجھ کو جو تیرے نبی کو پسند ہے
مجھے ایسا بندہ بنا میرے مولا
مجھے ایسا بندہ بنا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
تُو قدرت سے اپنی بدل نیکیوں سے
ہر اِک میری لغزش خطا میرے مولا
ہر اِک میری لغزش خطا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
تُو مسجود میرا میں ساجد ہوں تیرا
تُو مسجود میرا میں ساجد ہوں تیرا
تُو مالک میں بندہ ترا میرے مولا
تُو مالک میں بندہ ترا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
تُو مطلوب تیرا میں طالب ہوں تیرا
تُو مطلوب تیرا میں طالب ہوں تیرا
مجھے دے دے اپنی ولا میرے مولا
مجھے دے دے اپنی ولا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
نہ محتاج کر تُو جہاں میں کسی کا
مجھے مفلسی سے بچا میرے مولا
مجھے مفلسی سے بچا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
میری ہر خطا کو مٹا میرے مولا
میری تا قیامت جو نسلیں ہوں یارب
میری تا قیامت جو نسلیں ہوں یارب
ہوں سب عاشقِ مصطفی میرے مولا
ہوں سب عاشقِ مصطفی میرے مولا
ہوں سب عاشقِ مصطفی میرے مولا
رُلا تُو مجھے بس غم مصطفی میں
رُلا تُو مجھے بس غم مصطفی میں
نہ دنیا کے غم میں رُلا میرے مولا
نہ دنیا کے غم میں رُلا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
ہے اُدعُونی فرمان قرآں میں تیرا
ہے اُدعُونی فرمان قرآں میں تیرا
تُو سن لے میری التجا میرے مولا
تُو سن لے میری التجا میرے مولا
تُو سن لے میری التجا میرے مولا
مجھے بھی دکھا دے تُو جلوہ نبی کا
مجھے بھی دکھا دے تُو جلوہ نبی کا
یہی ہے میری التجا میرے مولا
یہی ہے میری التجا میرے مولا
یہی ہے میری التجا میرے مولا
اور جنہوں نے کہا ہے دعاؤں کا مجھ سے
جنہوں نے کہا ہے دعاؤں کا مجھ سے
تُو کردے سبھی کا بھلا میرے مولا
تُو کردے سبھی کا بھلا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
ہے کعبے پہ نطریں عبید رضا کی
ہو مقبول ہر اِک دعا میرے مولا
ہو مقبول ہر اِک دعا میرے مولا
گناہوں کی عادت چھڑا میرے مولا
مجھے نیک انساں بنا میرے مولا
نمازِ جنازہ کی ترکیب
نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ یعنی اگر کچھ لوگوں نے نماز جنازہ پڑھ لی تو سب بری
الذمہ ہوگئے۔ اور اگر کسی نے بھی نہیں پڑھی تو سب گنہگار ہوئے جو نماز جنازہ کے
فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ (درمختار ج1 ص581 )
مسئلہ: نمازِ جنازہ کیلئے جماعت شرط نہیں۔ ایک شخص بھی پڑھ لے تو فرض ادا
ہوگیا۔ (عالمگیری ج1 ص152)
مسئلہ: نمازِ جنازہ اس طرح پڑھیں کہ پہلے یوں نیت کرے۔ نیت کی میں نے نماز
جنازہ کی چار تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالٰی کیلئے اور دعاء اس میت کیلئے منہ
میرا کعبہ شریف کی طرف (مقتدی اتنا اور کہے) پیچھے اس امام کے پھر کانوں تک
دونوں ہاتھ اٹھاکر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھ لے۔
پھر یہ ثناء پڑھے۔ سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالٰی جدک وجل ثناءک
ولاالہ غیرک پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہے۔ اور درود ابراہیمی پڑھے جو
پنجوقتہ نمازوں میں پڑھے جاتے ہیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہے۔ اور
بالغ کا جنازہ ہو تو یہ دعاء پڑھے اللھم اغفرلحینا ومیتنا وشاھدنا غائبنا
وصغیرنا وکبیرنا وذکرنا وانثانا اللھم من احییتہ منا فاحیہ علی الاسلام ومن
توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان اس کے بعد چوتھی تکبیر کہے پھر بغیر کوئی دعاء
پڑھے کھول کر سلام پھیر دے۔ اور اگر نابالغ لڑکے کا جنازہ ہو تو تیسری تکبیر کے
بعد یہ دعاء پڑھے۔ اللھم اجعلہ لنا فرطا واجعلہ لنا اجرا وذخرا واجعلہ لنا
شافعا و مشفعا ط اور اگر نابالغ لڑکی کا جنازہ ہو تو یہ دعاء پڑھے۔ اللھم
اجعلھا لنا فرطا واجعلھا لنا اجرا وذخرا واجعلھالنا شافعۃ ومشفعۃ ط
مسئلہ: میت کو ایسے قبرستان میں دفن کرنا بہتر ہے جہاں نیک لوگوں کی قبریں ہوں۔
(عالمگیری ج1 ص156)
مسئلہ: مستحب یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر کے پاس سورہء بقرہ کا اول و آخر پڑھیں
سرہانے الم سے مفلحون تک اور پائنتی امن الرسول سے ختم سورت تک پڑھیں۔ (جوہرہ)
--
Read more...